اچھی نظر کا تجربہ
(حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (پی ۔ ایچ ۔ ڈی : امریکہ) ایڈیٹر : عبقری )
قارئین! میں کشمیر کی پہاڑیوں کی طرف گیا ہوا تھا کسی کو اطلاع نہیں تھی لیکن حیرت مجھے اس بات کی ہوئی کہ اس جگہ عبقری کو پڑھنے والے بھی مل گئے حالانکہ وہ دیہات تھا۔ بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے‘ ایک شخص نے مجھے اپنا تجربہ و مشاہدہ بتایا کہنے لگے ہمارے ہاں مرغیاں رات کو درختوں پر چڑھ کر بیٹھ جاتی ہیں اور بالکل محفوظ ہوتی ہیں۔ صبح اترکے دانہ دنکا چن کر پھر درختوں پر چڑھ جاتی ہیں لیکن ایک نظر ایسی ہے جو انہیں درختوں سے اتر کر صاحب نظر کے قدموں میں آنے پر مجبور کردیتی ہے۔
بھیڑئیے کی نظر :
میں حیرت سے بول پڑا‘ پوچھا وہ نظر کس کی ہے؟ جو شخص مجھے یہ مشاہدہ سنا رہے تھے وہ دراصل عبقری کے پرانے قاری تھے۔ انہیں پتہ چلا کہ عبقری کے ایڈیٹر ہماری بستی میں آئے ہوئے ہیں تو سب کام چھوڑ کر مجھے ملنے آئے خوش ہوئے‘ بہت مسرور ہوئے‘ مجھے کہنے لگے یہ نظریں بھیڑئیے کی ہیں‘ بھیڑئیے کی نظروں میں یہ تاثیر ہے کہ وہ رات کے اندھیرے میں نکلتا ہے اور درختوں پر نظر ڈالتا ہے اور جب محسوس کرتا ہے کہ مرغی ہے اور درخت پر بیٹھی ہے اس کی طرف اپنی شکاری نظریں گاڑھ کر دیکھتا ہے اور جب اس کی نظریں مرغی پر جاتی ہیں تو مرغی وہاں سے اڑتی ہے اور بھیڑئیے کے قدموں میں آکر گرتی ہے اور بھیڑیا اسے شکار کرلیتا ہے۔
اللہ والوں کی نظر کا چھوٹا سا واقعہ:
قارئین! یہ چھوٹی سی بات میں سن رہا تھا اور حیران بھی ہورہا تھا اور حیران اس بات پر ہورہا تھا کہ ایک بھیڑئیے کی نظروں میں یہ تاثیر اور نظریں بھی شکاری اور ایک اللہ والا جس کی نظر میں اللہ کی محبت کا خمارہو‘ جس کے دل میں اللہ کے دل کی لذت اور سرور ہوگا۔ کیا اس کی نظروں میں اثر نہیں‘ یقیناً اثر ہوتا ہے اور اس اثر کے کئی مشاہدات وتجربات ہیں میری زندگی میں اس اثر سے لوگ اللہ والے کے قدموں میںجاگرتے ہیں اور اپنا دل دے دیتے ہیں اور دل کی دنیا سنوار لیتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں:۔
یہ 1984ء کی بات ہے جب میں ایک اللہ والے کے ساتھ منسلک ہوا انہی صاحب کے حوالے سے میں ان کی خدمت میں پہنچا تھاکچھ عرصہ آتا جاتا رہا۔ انہوں نے کوئی توجہ نہیں فرمائی اور یہ مجھے بعد میں محسوس ہوا کہ وہ میری طلب دیکھ رہے تھے کہ اس میں طلب سچی ہے یا کچی‘ یا اپنی چاہت میں سچا ہے یا کچا لیکن میں نے بھی ان کی خدمت میں آنا جانا نہ چھوڑا اور ان کی خدمت کرتا رہا‘ جتنی بھی زیادہ خدمت ہوسکتی تھی‘ وہ بدنی خدمت تھی جس طرح کی بھی خدمت تھی میں کرتا رہا۔ ایک دفعہ کی بات ہے جب میں ان کے روبرو حاضر ہوا اکیلے بیٹھے تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ان کی نظریں کمزور نہیں تھیں‘ بس مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے کسی خاص نظر سے دیکھا ہے‘ بس وہ نظریں کیا تھیں‘ ایک انوکھا سا کیف اور کیفیت جس کو میں شاید لفظوں میں بیان نہ کرسکوں‘ میرے دل کو کھاگئیں‘ اور میرا سانس پھولنے لگا اور میرے خون کے اندر ایک عجیب وجد اور انوکھی کیفیت پیدا ہوگئی اور میں بے ساختہ تیسرا کلمہ پڑھنے لگا۔ اب مجھے پتہ نہ چلا کہ مجھے کیا ہوگیا‘ بس ان کی خدمت میں بہت دیر خاموش دل ہی دل میں ذکر کرتا رہا‘ وہ خاموش بیٹھے رہے کچھ نہ بولے اور میں والہانہ انداز میں ہلکی آواز میں ذکر کرتا رہا۔ مدہوشی کی کیفیت تھی‘ ایک ایسی مدہوشی جو شاید میں آپ کو لفظوں میں نہ پہنچا سکوں‘ ایک ایسا لذت کا سرور جس میں شاید میرا قلب وہ لفظ تراش نہ سکے۔ ایک ایسا وجدان جس کی خبر میرے دل کو ہے بہت دیر تک بیٹھا ذکر کرتا رہا‘ پھر اٹھا اور قریب مسجد میں چلا گیا‘ وضو تھا لیکن پھر وضو کیا‘ اس وضو کی لذت مجھے آج تک نہیں بھولی‘ پھر میں نے دو نفل شکرانے کے پڑھے‘ اس نفل کے سجدے پھر مجھے شاید ہی کبھی نصیب ہوں‘ پھر میں نے لمبی دعا مانگی اور دعا میں میرے آنسو اور ہچکیاں اور سسکیاں پھر کبھی شایدہی مجھے میسر ہوں‘ پھرایک شعر میری زبان پر جاری ہوا
اور وہی کا وہی شعر بعد میں ایک کہنے والے نے بھی کہہ دیا میرے من میں تھیں بڑی چاہتیں میرے دل میں تھیں بڑی لذتیں
جس طرح نظربد لگتی ہے اسی طرح اچھی نظر بھی لگتی ہے۔ نظربد تو آپ نے سنی لیکن اچھی نظر نہ آپ نے کبھی سنی نہ دیکھی نہ پرکھی۔ اے کاش! کبھی ہمیں اچھی نظر کا تجربہ اور مشاہدہ ہوجائے لیکن اس کیلئے تلاش اور طلب بہت ضروری ہے‘ طلب والے بہت کم ہیں‘ تلاش والے بہت کم ہیں۔
(www.ubqari.org)
٭…٭…٭